A friend sent me the following excerpt from the book Zaviya by famous writer and philosopher Ashfaque Ahmed and I thought I must share it with my viewers for it contains something that only few can understand.
Asfaque Ahmed and his book 'Zaviya' |
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحب گوجرانوالہ گئے ، میں بھی ان کے ساتھ تھا - ہم جب پورا دن گوجرانوالہ میں گزار کر واپس آ رہےتھے تو بازار میں ایک فقیر ملا ، اس نے بابا جی سے کہا کچھ دے الله کے نام پر -
انھوں نے اس وقت ایک روپیہ بڑی دیر کی بات ہے ، ایک روپیہ بہت ہوتا تھا - وہ اس کو دیا وہ لے کر بڑا خوش ہوا ، دعائیں دیں ، اور بہت پسند کیا بابا جی کو -
بابا جی نے فقیر سے پوچھا شام ہو گئی ہے کتنی کمائی ہوئی ؟ فقیر ایک سچا آدمی تھا اس نے کہا ١٠ روپے بنا لیے ہیں تو دس روپے بڑے ہوتے تھے -
تو بابا جی نے فقیر سے کہا تو نے اتنے پیسے بنا لیے ہیں تو اپنے دیتے میں سے کچھ دے - تو اس نے کہا بابا میں فقیر آدمی ہوں میں کہاں سے دوں -
انھوں نے کہا ، اس میں فقیر امیر کا کوئی سوال نہیں جس کے پاس ہے اس کو دینا چاہیے تو اس فقیر کے دل کو یہ بات لگی -
کہنے لگا اچھا - وہاں دو مزدور کدالیں کندھے پر ڈالے گھر واپس جا رہے تھے - تو وہ فقیر بھاگا گیا ، اس نے چار روپے کی جلیبیاں خریدیں ، چار روپے کی ایک کلو جلیبیاں آیا کرتی تھیں -
اور بھاگ کے لایا ، اور آکر اس نے ان دو مزدوروں کو دے دیں - کہنے لگا ، لو ادھی ادھی کر لینا - وہ بڑے حیران ہوئےمیں بھی کھڑا ان کو دیکھتا رہا تو مزدور جلیبیاں لے کے خوش ہوئے اور دعائیں دیتے چلے گئے - بڑی مہربانی بابا تیری ، بڑی مہربانی -
تو وہ جو فقیر تھا کچھ کھسیانا ، کچھ شرمندہ سا تھا ، زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے خیرات دی تھی - وہ تو لینے والے مقام پر تھا تو شرمندہ سا ہو کر کھسکا -
تو میرے بابا جی نے کہا، " اوئے لکیا کدھر جانا ایں تینوں فقیر توں داتا بنا دیتا اے ، خوش ہو نچ کے وکھا - "
تو فقیر سے جب داتا بنتا ہے نا، تواس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے ، تو باہر نہیں تو اس کا اندر ضرور ناچنے لگتا ہے
از اشفاق احمد زاویہ بابا جناح صفحہ ٢٢٢
انھوں نے اس وقت ایک روپیہ بڑی دیر کی بات ہے ، ایک روپیہ بہت ہوتا تھا - وہ اس کو دیا وہ لے کر بڑا خوش ہوا ، دعائیں دیں ، اور بہت پسند کیا بابا جی کو -
بابا جی نے فقیر سے پوچھا شام ہو گئی ہے کتنی کمائی ہوئی ؟ فقیر ایک سچا آدمی تھا اس نے کہا ١٠ روپے بنا لیے ہیں تو دس روپے بڑے ہوتے تھے -
تو بابا جی نے فقیر سے کہا تو نے اتنے پیسے بنا لیے ہیں تو اپنے دیتے میں سے کچھ دے - تو اس نے کہا بابا میں فقیر آدمی ہوں میں کہاں سے دوں -
انھوں نے کہا ، اس میں فقیر امیر کا کوئی سوال نہیں جس کے پاس ہے اس کو دینا چاہیے تو اس فقیر کے دل کو یہ بات لگی -
کہنے لگا اچھا - وہاں دو مزدور کدالیں کندھے پر ڈالے گھر واپس جا رہے تھے - تو وہ فقیر بھاگا گیا ، اس نے چار روپے کی جلیبیاں خریدیں ، چار روپے کی ایک کلو جلیبیاں آیا کرتی تھیں -
اور بھاگ کے لایا ، اور آکر اس نے ان دو مزدوروں کو دے دیں - کہنے لگا ، لو ادھی ادھی کر لینا - وہ بڑے حیران ہوئےمیں بھی کھڑا ان کو دیکھتا رہا تو مزدور جلیبیاں لے کے خوش ہوئے اور دعائیں دیتے چلے گئے - بڑی مہربانی بابا تیری ، بڑی مہربانی -
تو وہ جو فقیر تھا کچھ کھسیانا ، کچھ شرمندہ سا تھا ، زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے خیرات دی تھی - وہ تو لینے والے مقام پر تھا تو شرمندہ سا ہو کر کھسکا -
تو میرے بابا جی نے کہا، " اوئے لکیا کدھر جانا ایں تینوں فقیر توں داتا بنا دیتا اے ، خوش ہو نچ کے وکھا - "
تو فقیر سے جب داتا بنتا ہے نا، تواس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے ، تو باہر نہیں تو اس کا اندر ضرور ناچنے لگتا ہے
از اشفاق احمد زاویہ بابا جناح صفحہ ٢٢٢
The English translation is given at Jaho Jalal, from where this post has been shared. Those who cannot read Urdu, may read the translation at: Jaho Jalal
0 comments:
Post a Comment