Friday, April 27, 2012

Let the mothers of martyrs smile

Now that those burred under rubble and bouldered snow have been there for more than two weeks and except for any miracle there does not seem to be any hope of their survival, my friend Jamil Bravo from Canada shared a very heart moving and lamenting poem and I thought I must share it with my readers - for it is worth sharing, reading and understanding.

Although it is difficult to console a mother who had borne the pain of child-birth and then rearing her son into a young man and then waiting for him, even when there is no hope....

This is what her son writes to her from somewhere buried deep under tons of rubble and darkness: [In time I shall translate the poem for those who do no understand Urdu]

دعا کرنا
کہ کبھی تیرا یہ بیٹا
خاکی وردی پہنے
سینے پہ تمغے سجاءے
مجاہدوں کا سا نور لیے
تیرے سامنے فخر سے کھڑا ہو،
اور میری ماں
میری ماں یہ سن کر
ہنس دیا کرتی تھی ـ ـ ـ
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے تو اْس سے کہنا
وہ اب بھی ہنستی رہا کرے،
کہ شہیدوں کی مائیں
رویا نہیں کرتیں۔ ۔ ۔ ۔
میں اکثر ماں سے کہتا تھا
اْس دن کا انتظار کرنا،
جب دھرتی تیرے بیٹے کو پکارے گی،
اور ان عظیم پربتوں کے درمیان بہتے
اْشو کے دریا کا نیلا پانی،
اور سوات کی گلیوں میں بارش کے قطروں کی طرح گرتی
روشنی کی کرنیں پکاریں گی۔ ۔ ۔
اور پھر اس دن کے بعد،
میرا انتظار نہ کرنا،
کہ خاکی وردی میں جانے والے اکثر،
سبز ہلالی میں لوٹ کر آتے ہیں۔ ۔ ۔
مگر میری ماں۔ ۔ ۔
آج بھی میرا انتظار کرتی ہے،
گھر کی چوکھٹ پہ بیٹھی لمحے گنتی رہتی ہے،
میرے لیے کھانا ڈھک رکھتی ہے۔ ۔ ۔
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے
تو اْس سے کہنا،
وہ گھر کی چوکھٹ پہ بیٹھ کر
میرا انتظار نہ کیا کرے۔ ۔ ۔ ۔
خاکی وردی میں جانے والے
لوٹ کر کب آتے ہیں؟
میں اکثر ماں سے کہتا تھا
یاد رکھنا !
اس دھرتی کے سینے پہ
میری بہنوں کے آنسو گرے تھے،
مجھے وہ آنسو انہیں لوٹانے ھیں۔ ۔ ۔
میرے ساتھیوں کے سر کاٹے گئے تھے
اور ان کا لہو پاک مٹی کو سرخ کر گیا تھا۔۔
مجھے مٹی میں ملنے والے
اْس لہو کا قرض اتارنا ہے۔ ۔ ۔
اور میری ماں یہ سن کر
نم آنکھوں سے
مسکرا دیا کرتی تھی۔ ۔ ۔
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے
تو اْس سے کہنا
اس کے بیٹے نے لہو کا قرض چکا دیا تھا
اور
دھرتی کی بیٹیوں کے آنسو چن لیے تھے۔ ۔ ۔
میں اکثر ماں سے کہتا تھا
میرا وعدہ مت بھلانا،
کہ جنگ کے اس میدان میں
انسانیت کے دشمن درندوں کے مقابل
یہ بہادر بیٹا پیٹھ نہیں دکھائے گا
اور ساری گولیاں
سینے پہ کھائے گا
اور میری ماں
یہ سن کر
تڑپ جایا کرتی تھی
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے
تو اْس سے کہنا،
اس کا بیٹا بزدل نہیں تھا،
اس نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی،
اور ساری گولیاں سینے پہ کھائیں تھی۔ ۔۔ ۔
میں اکثر ماں سے کہتا تھا،
تم فوجیوں سے محبت کیوں کرتی ہو؟
ہم فوجیوں سے محبت نہ کیا کرو، ماں!
ہمارے جنازے ہمیشہ جوان اْٹھتے ہیں۔ ۔ ۔
اور میری ماںـ ـ ـ
میری ماں یہ سن کر
رو دیا کرتی تھی ـ ـ ـ
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے
تو اْس سے کہنا،
وہ فوجیوں سے محبت نہ کیا کرے۔ ۔ ۔
اور
دروازے کی چوکھٹ پہ بیٹھ کر
میرا انتظار نہ کیا کرے
سنو۔ ۔ ۔!
تم میری ماں سے کہنا

اْس سے کہنا وہ اب بھی ہنستی رہا کرے کہ ... شہیدوں کی مائیں رویا نہیں کرتیں

0 comments:

Post a Comment

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More